top of page

ہندوستان کی آزادی میں ہمارا کردار: مولانا ارشد مدنی صاحب مدظلہ


الحمد للہ و الصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ :

(ہندوستان کی آزادی میں ہمارا کردار) مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ :


کسی بھی قوم کیلئے آزادی ایک عظیم نعمت ہوتی ہے سب سے پہلے آزادی کی تحریک 1857میں نہیں بلکہ اس سے بہت پہلے اس وقت شروع ہوئی جب 1799میں سرنگا پٹم میں ٹیپو سلطان کو شہید کیا گیا، ٹیپوسلطان نے اس تحریک کو جہاں چھوڑاتھا اس کوآگے بڑھانے اور عوام میں جذبہ حریت جگانے کا کام اس وقت کے علماء نے کیا تھا ، ہم آزادی وطن کی تقریبات میں ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو یادکرتے ہیں جس کے نتیجہ میں ملک آزادہوا اور غلامی کی لعنت سے ہم کوآزادی ملی، ہمارے ہاتھوں اور پیروں میں غلامی کی زنجیریں پڑی ہوئی تھی جس سے ہم آج ہی کے دن آزادہوئے، درحقیقت یہ ہمارے بزرگوں کے قربانیوں کا ثمرہ ہے اس لئے ہمارافرض بنتا ہے کہ ہم ان کی قربانیوں کا تذکرہ کرتے رہیں.

آزادی کی بنیادی تحریک شیخ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ کی ذات سے جڑی ہوئی ہے، سلطان ٹیپوکوجب شہید کیا گیا تو انگریز جنرل نے ان کے سینہ پر کھڑے ہوکر کہا تھا کہ اب ہندوستان ہماراہے، بعدازاں ملک کے مہاراجاوں اور نوابوں کوزیر کرنے کہ بعد 1803میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے دہلی میں اعلان کیا کہ خلق خداکی، ملک بادشاہ سلامت کا مگر آج سے حکم ہماراچلے گا تو اس وقت کے سب سے بڑے عالم دین شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ نے یہ اعلان کیا تھا کہ آج ہماراملک غلام ہوگیا اور اس غلامی سے نجات کے لئے جہادکرنا ہر مسلمان کا فرض ہے، اس وقت کسی راجہ،یا نواب میں یہ حوصلہ نہیں تھا کہ وہ انگریزوں کے خلاف آواز اٹھاتا مگر ایک بوریا نشیں نے یہ حوصلہ کیا جس کی سزا یہ انہیں بھگتنی پڑی کہ ان کی جائداد،مدرسہ اور مسجد کو قرق کرلیا گیا شہرسے انہیں نکال دیا گیا اور ایک ایسا زہر دیدیا گیا جس سے ان کے جسم پر سفید داغ پڑگئے مگر اس انسان کے اندرآزادی کی جو آگ تھی وہ روشن رہی انہوں نے سید احمد شہید رائے بریلوی ؒ اور شاہ اسماعیل شہید ؒ جو ان کے نواسے تھے آزادی وطن کیلئے تیا رکیا 1824میں شاہ صاحب کا انتقال ہوگیا اور ان کی تحریک کو انہی دونوں لائق شاگردوں نے آگے بڑھایا بلکہ پورے ملک کے دورہ کئے اور ہندووں اور مسلمانوں سے یہ عہد لیا کہ وہ آزادی ملک کے لئے قربان ہوجائیں، بالآخر یہ دونوں شخصیتیں بھی بالاکوٹ میں شہید ہوگئیں

اسی طرح حضرت شیخ الہند مولانا محمودحسن ؒ کی آزادی وطن کیلئے ان کی خدمات دارالعلوم دیوبند کا قیام کیوں ہوا اور کن حالات میں عمل میں آیا؟ انہو ں نے علماء صادق پورکا بھی حوالہ دیا اورکہا کہ علماء کی آوازپر 1845تک ہندواور مسلمان متحد ہوکر وطن کی آزادی کے لئے لڑتے اور جانوں کی قربانیاں پیش کرتے رہے 1857میں وطن کی آزادی کیلئے پہلی نہیں دوسری جنگ لڑی گئی

اس دورمیں انگریزوں نے ان مسلم بچوں کو جن کے باپ آزادی وطن کی جنگ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے اپنے رنگ میں ڈھالنے کے لئے ان کو مفت تعلیم، رہائش اور کھانے کا لالچ دیا، اس وقت مولاناقاسم نانوتوی ؒ اور مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ جیسے علماء نے دارالعلوم دیوبند کی بنیادڈالی، اور اعلان کیا کہ ان بچوں کی کفالت ہم کریں گے اور تعلیم سے آراستہ کرکے انہیں انگریزوں سے لڑنے کے لئے تیارکریں گے۔

یہ وہ بوریا نشیں لوگ جنہوں نے پوری قوم کو بیدارکیا، دارالعلوم دیوبند کے قیام کوڈیڑھ سوبرس پورے ہوچکے ہیں مگر اس کے مصارف میں ہم کسی حکومت سے مددنہیں لیتے آج اس کے مصارف کا خرچ تقریبا 33کروڑ سے زائد ہے اور یہ تمام پیسہ قوم کے لوگ دیتے ہیں، شیخ الہند مولانا محمودحسن ؒ دارالعلوم کے پہلے طالب علم تھے جنہوں نے دیارغیر میں ایک جلاوطن حکومت قائم کی اور اس جرم میں دوسرے لوگوں کے ساتھ انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں اٹھائی مجھے تعجب ہوتا ہے کہ آزادی وطن کیلئے ہمارے علماء نے جو قربانیاں دیں اب اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جب کہ سچائی یہ ہے کہ ہمارے انہی بزرگوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں ملک آزادہوا، ہمارے علماء نے جمعیۃعلماء ہند کے بینرتلے دوسرے برادران وطن کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملاکر جنگ آزادی میں حصہ لیا، اور جب آزادی ملی تو ہمارے بزرگوں نے اعلان کردیا کہ اب جمعیۃعلماء ہند خالص مذہبی جماعت ہوگی اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا، جبکہ ہمیں اقتدارکا کوئی لالچ نہیں ہے، ملک کو غلامی سے آزادکرانا ہمارا مذہبی فرض تھا جسے ہم نے پوراکردیا جس طرح ہندواورمسلمانوں نے مل کر آزادی کی جنگ لڑی ہم سمجھتے ہیں کہ نفرت کے خلاف بھی ہمیں اسی طرح مل کر جنگ لڑنی ہوگی، کیونکہ ملک نفرت سے نہیں پیارومحبت سے ہی چل سکتاہے، اگر نفرت کو ختم نہیں کیا گیا تو یہ ملک باقی نہیں رہے گا ہمارایہ نظریہ ہے کہ اورہم اس نظریہ پر پہاڑکی طرح ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ یہ کہ ملک میں جب تک بھائی چارہ،اتحاد، اور پیارومحبت زندہ ہے یہ ترقی کرکے آگے بڑھتارہے گا لیکن اگر نفرت کو شکست نہیں دی گئی تو یہ ملک تباہ بربادہوجائے گا۔



255 views0 comments
bottom of page