top of page

ملک کی جنگ آزادی اور سیکولر دستور سازی میں جمعیت علماء ہند کا قائدانہ کردار :مولانا ارشد مدنی

Arshad Madani

The leading role of JUH in India's freedom struggle and secular constitution-making
The leading role of JUH in India's freedom struggle and secular constitution-making

ملک کی جنگ آزادی اورسیکولردستورسازی میں جمیعۃعلماء ہند کا قائدانہ کردار

جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھاتھا یہ وہ ہندوستان ھرگز نہیں

آزادی کیا ہوتی ہے ؟ ہم سے پوچھوقربانیاں توہم نے دی ہیں :مولانا ارشدمدنی


اس بار کا یوم جمہوریہ بہت خاص ہے کیونکہ آئین کے نفاذ کو 75سال مکمل ہوچکے ہیں ،اس تاریخی موقع پرجمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے ملک کے شہریوں کو 75ویں یوم جمہوریہ پر دلی مبارک بادپیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی آزادی میں قربانی دینے والے ہمارے بزرگوں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھاتھا وہ یہ ہندوستان ہرگزنہیں ،ہمارے بزرگوں نے ایسے ہندوستان کا خواب دیکھاتھا جس میں بسنے والے تمام لوگ ہمیشہ کی طرح نسل ، برادری اورمذہب سے اوپر اٹھ کر امن وآتشی کے ساتھ رہ سکیں ۔ مجاہدین آزادی کی قربانیوں کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ آزادی ہی نہیں ملک کی کوئی بھی تاریخ ہندوستان کے علماء کرام کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ہے، ہندوستان کی آزادی کی تحریک علماء اورمسلمانوں نے شروع کی تھی یہاں کے عوام کو غلامی کا احساس اس وقت کرایاتھا جب اس کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں رہا تھا، ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے علم بغاوت علماء ہی نے بلند کیا تھا، ہمارے اکابرین اورعلماء نے آزادی وطن کا صورتب پھونکاتھا جب دوسری قومیں سوررہی تھیں، مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ ہم ملک کی اصل تاریخ سے دانستہ چشم پوشی کرنے والوں کو یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ جابر انگریزحکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے والے یہ ہمارے اکابرین ہی تھے جنہوں نے کابل میں ایک جلاوطن حکومت قائم کی تھی اور اس حکومت کا صدرایک ہندوراجہ مہندرپرتاپ سنگھ کو بنایاگیاتھا، کیونکہ ہمارے اکابرین مذہب سے بالاترہوکر محض اتحاداور انسانیت کی بنیادپر اس ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزادکرانے کے حق میں تھے، وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ ہندوؤں اورمسلمانوں کو ایک ساتھ لائے بغیر یہ خواب پورانہیں ہوسکتاتھا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعدمیں جب شیخ الہند مالٹاکی جیل سے رہاہوکرباہر آئے توانہوں نے زوردیکر یہ بات کہی کہ ملک کی آزادی کامشن تنہامسلمانوں کی کوشش سے پورانہیں ہوسکتا، بلکہ اگر انگریزوں کے چنگل سے ملک کو باہر نکالناہے تو آزادی کی تحریک کو ہندومسلم تحریک بنانا پڑیگا، انہوں نے یہ بھی فرمایاتھا کہ اگر خوش قسمتی سے سکھوں کی جنگجوں قوم بھی ساتھ آجائے تو آزادی وطن کی راہ اوربھی زیادہ آسان ہوجائے گی، شیخ الہند کا یہ مقولہ کتابوں میں محفوظ ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارے اکابرین ہندومسلم اتحادکے راستہ پر آگے بڑھے اورملک کوانگریزوں کی غلامی سے آزادکرایا، بدقسمتی یہ ہوئی کہ ملک آزادہوگیا اورتقسیم بھی ہوگیا اوریہ تقسیم تباہی وبربادی کا سبب بن گئی، اوریہ کسی ایک مخصوص قوم کے لئے نہیں بلکہ ہندوؤں اورمسلمان سب کے لئے، مولانا مدنی کہا کہ اگر تقسیم نہ ہوئی ہوتی اوریہ تینوں ملک ایک ہوئے ہوتے توآج یہ صورتحال ہرگزنہ ہوئی ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ اگریہ طاقت ایک ہوتی تو دنیاکی کوئی طاقت ہماری طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کا حوصلہ نہیں کرسکتی، اس طویل جدوجہد آزادی کے بعد سیکولردستورسازی میں ملک کی فعال ومتحرک جماعت جمعیۃعلماء ہند کا جو قائدانہ کرداررہاہے وہ ہر اعتبارسے تاریخی ہے۔یہی وجہ تھی کہجیسے جیسے ملک کی آزادی کے امکانات روشن ہوتے گئے ہمارے علماء اس وقت کی اعلیٰ قیادت جیسے موتی لال نہرو، مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرووغیرہ سے برابر عہد لیتے رہے کہ ملک کی آزادی کے بعد ملک کا دستور سیکولر دستور بنے گا اور کانگریس قیادت بھی اس بات کی یقین دہانی کراتی رہی کہ مسلمانوں کی مسجدیں، مسلمانوں کے مدرسے، مسلمانوں کے امام باڑے، مسلمانوں کے قبرستان، مسلمانوں کی زبان، مسلمانوں کا کلچرل، مسلمانوں کی تہذیب یہ تمام چیزیں محفوظ رہیں گی، لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ ملک آزاد ہوا اور ہمارے اکابر کے نظریہ کے خلاف تقسیم بھی ہوگیا ،یایہ کہ تقسیم کردیاگیا، اس کے بعد سے بعض حلقوں کی جانب سے یہ آواز اٹھنے لگی کہ جب اسلام کے نام پر مسلمانوں کوحصہ دیدیاگیا تو اس ملک کو ہندو اسٹیٹ بننا چاہئے اور اب ملک کا دستور سیکولر اسٹیٹ نہ ہوکر ایک ہندو اسٹیٹ ہونا چاہیے، یہ ہمارے اکابرین کی دور اندیشی تھی جو انہوں نے آزادی سے قبل ہی کانگریس قیادت پر سیکولر دستور سازی کے لئے نہ صرف دباو ڈالا بلکہ اس کی یقین دہانی بھی کروائی؛ چنانچہ وہ اس بات پر اڑ گئے اور انہوں نے کانگریس کے قائدین سے کہا کہ ہم سے جو وعدے کئے ہیں انہیں پور اکرو ،اگر ملک تقسیم ہوا ہے تو اس پر آپ لوگوں نے دستخط کئے ہیں، ہم نے نہیں، اس لئے ملک کا دستور سیکولر ہوگا، اس سچائی کا بہر حال اعتراف کیا جانا چاہیے کہ اس وقت کی کانگریس قیادت ایماندار تھی اس نے اپنے وعدے کا پاس رکھا اور ہندواسٹیٹ کا مطالبہ کرنے والوں کے دباؤ میں نہیں آئی، اس نے جمعیۃ علماء ہند کے سیکولر دستور کے مطالبے کو تسلیم کرلیا، اس طرح ہمارا آئین تیار ہوا اور اس کا کردار جمہوری اور سیکولر رکھا گیا، اگر اس وقت کے ہمارے اکابرین ایسی درو اندیشی سے کام نہ لیتے اور ذرا بھی کمزور پڑجاتے تو آج یہ ملک جمہوری ملک نہ ہوکرایک ہندو اسٹیٹ ہوتا اور تب شاید ملک کی بے شمار مذہبی اور زبانی اقلیتیں بشمول مسلمان اپنے مذہبی حقوق سے محروم رہتیں۔لیکن افسوس موجودہ حکومت ، وقف ترمیمی بل لاکر ان مسجدوں، مقبروں، قبرستانوں ،امام باڑوں اور اوقاف کی ان جائدادوں کوہڑپ لیناچاہتی ہے جس کے تحفظ کا آزادی کے وقت ہندوستان کے سیکولر آئین اوردستور میں وعدہ کیا گیا تھا۔آج جو لوگ ہماری حب الوطنی پر سوال اٹھاتے ہیں وہ بتائیں کہ ان کے لوگوں نے ملک کی آزادی کے لئے کیا کیا ؟ انہوں نے کونسی پھلی توڑی ؟ ۔ پہلے ہم نے ملک کی آزادی کے لئے قربانیاں دیں مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہمیں اس آزادی کی تحفظ کے لئے قربانی دینی ہوگی۔اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں جب لب کشائی کو بھی ایک سنگین جرم قرار دیا جانے لگے گا۔

75 ویں یوم جمہوریہ کی مناسبت سے بات کرتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولاناارشدمدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کا ماضی اورحال شاہد ہیں کہ اس نے ہمیشہ ملک کے اتحاد،یکجہتی اورسالمیت کو برقراررکھنے کے لئے مثبت کوششیں کی ہیں، آزادی کے بعد ملک کا جو سیکولرآئین مرتب ہوایہ بھی جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین کی کوششوں اوردوراندیشی کانتیجہ ہے، انہوں نے کہاکہ ہمیں ملک کے آئین سے اس لئے محبت ہے کہ یہ ملک کے اتحاد، یکجہتی اورسالمیت کی وہ دستاویز ہے جس کی روشنی میں ہم ملک کے مستقبل کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک خوشحال اورپوری دنیا کے لئے ایک مثالی ملک بناسکتے ہیں،صدرجمعیۃعلماء ہند نے زوردیکر کہاکہ ہماری نظرمیں آئین جمہوریت کی بنیادکاوہ پتھرہے کہ اگراسے اس کی جگہ سے ہلایا گیا توپھر جمہوریت کی یہ عظیم عمارت بھی کھڑی نہ رہ سکے گی، اس لئے ہم اکثرکہتے ہیں کہ آئین بچے گا گاتوملک بچے گا انہوں نے یہ بھی کہا کہ پچھلے کچھ برسوں کے دوران ملک میں جو یک رخی سیاست کی جارہی ہے اس نے آئین کے وجودپر سوالیہ نشان لگادیاہے بظاہر آئین کی قسمیں کھائی جاتی ہیں، اس کا قصیدہ بھی پڑھاجاتاہے لیکن سچائی یہ ہے کہ آئینی احکامات کی صریحا خلاف ورزی کرکے ملک کی اقلیتوں خاص طورپر مسلمانوں کو نت نئے حربوں سے پریشان کیاجارہاہے، ایسے میں ہماری ہی نہیں ملک کے ان تمام شہریوں کی جو ملک کے آئین اورجمہوریت میں یقین رکھتے ہیں یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین کوبچانے کے لئے آگے آئیں کیونکہ اگر آئین کی بالادستی ختم ہوئی توپھر جمہوریت بھی زندہ نہیں رہ سکے گی۔ سماجی ومعاشرتی صورتحال کا ایماندارانہ تجزیہ کرنے پر زوردیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہاکہ آپ شدت سے محسوس کریں گے کہ مذہبی منافرت اورشدت پسندی کو ہر سطح پر بڑھاوادیاجارہاہے، اتحاداوریکجہتی کو ختم کرنے کے لئے دلوں میں نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں، ایک مخصوص فرقہ کو نشانہ بنانے کی غرض سے آئے دن نئے نئے قانون بنائے جارہے ہیں،انصاف کا گلاگھونٹاجارہاہے اوردستورکی بالادستی کو ختم کرکے انصاف اورقانون کی حکمرانی کی جگہ آمرانہ رویہ اختیارکرکے لوگوں میں خوف ودہشت پھیلائی جارہی ہے،آج جس آزادی اورجمہوریت کا پوری دنیامیں زورشورسے ڈھنڈھوراپیٹاجارہاہے یہ ہمارے اکابرین اوراسلاف کی طویل جدوجہد اورقربانی کا نتیجہ ہے،انہوں نے کہاکہ جمعیۃعلماء ہند کابنیادی مقصدملک میں جمہوریت کی سربلندی اوردستورکے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ امن وآشتی اورباہمی اخوت ومحبت کی صدیوں پرانی روایت کو نئی زندگی دینا ہے۔ انہوں نے کہاکہ کسی بھی مہذب اورترقی یافتہ سماج کے لئے عدل وانصاف سب سے بڑاپیمانہ ہوتاہے، ہر حکمراں کابنیادی فرض اپنی رعایا یعنی عوام کو انصاف مہیاکرانا ہوتاہے، لیکن افسوس اس کی جگہ فرقہ پرست لوگوں کی متعصب ذہنیت ایک مخصوص فرقہ کو دیوارسے لگادینے کی دانستہ سازش کررہی ہے، نوجوانوں کو تعمیری کاموں میں لگانے کے بجائے تخریب اورنفرت کا آلہ کاربنایاجارہاہے،متعصب میڈیا جھوٹ اوراشتعال پھیلانے کا سب سے بڑاذریعہ بن گیاہے یہ کس قدرمضحکہ خیزہے کہ ایک طرف آئین کی قسمیں کھائی جاتی ہیں دوسری طرف آئین کے رہنمااصولوں کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، ایک مخصوص فرقہ کے ساتھ کچھ اس طرح کا سلوک برتاجارہاہے گویااس کے پاس اب کوئی آئینی اختیارنہیں رہا،ملک کی اقلیتوں کو مطمئن کرنا کسی بھی حکمراں کی ذمہ دارہوتی ہے، مگر ہویہ رہاہے کہ ملک کے سیکولرکردار پرمسلسل حملے ہورہے ہیں، مدارس پرقدغن لگائے جارہے ہیں، مذہبی آزادی ختم کی جارہی ہے، کھانے پینے پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں، یہاں تک کہ ہم سے ہمارے جینے کا حق بھی چھیناجارہاہے،اور یہ سب تب ہورہاہے جب وہ سیکولر آئین اب بھی اصل شکل میں موجودہے جس میں ملک کی اقلیتوں کو خصوصی اختیارات ہی نہیں مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت بھی دی گئی ہے، یہی وہ سیکولرآئین ہے جس کے لئے ہمارے اکابرین ڈیڑھ سوسال تک ملک کو غلامی سے آزادکرانے کے لئے قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ خودکو سیکولرکہنے والی بعض سیاسی پارٹیاں محض اقتدار کا فائدہ اٹھانے کے لئے فرقہ پرست طاقتوں کی درپردہ معاونت اورحمایت کررہی ہیں جوکسی طرح بھی ایک مستحکم جمہوریت کے لئے نیک فال نہیں ہے ۔



247 views0 comments

Comentarios


2.jpg
icon (1).png

> MAULANA SYED ARSHAD MADANI

Arshad Madani is the son of Maulana Syed Hussain Ahmad Madani, who was the former President, Jamiat Ulama-e-Hind, and Prisoner of Malta. He was also Head of Teachers and Professor of Hadees in Darul Uloom, Deoband, Uttar Pradesh, India.

> CONTACT

Phone: +91 9150 000 320

Email: info@arshadmadani.com

Madani Manzil Deoband,

Uttar Pradesh - 247554

©2021 by Maulana Arshad Madani.

bottom of page