ملک بھر میں پچھلے کچھ برسوں کے دوران فرقہ پرست طاقتوں نے جس طرح نفرت کا ماحول قائم کر دیا ہے اور اس سلسلہ میں حکومت کا جو کر دار رہا ہے اس کے پیش نظر مسلمان یہ یقین کرنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ اس وقت ہر پالیسی اس کے وجود کو تباہ و برباد کر دینے کے لئے سامنے آرہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ دینی مدارس فرقہ پرستوں کی آنکھ کے کانٹے ہیں اس لئے ہمیں ان کی نیتوں کو سمجھنا ہو گا، مدارس کے نظام کو درست کرنے کی بات اپنی جگہ لیکن ہمیں ان کے لئے کمر بستہ ہو نا ہو گا کیونکہ کہ یہ مدارس قوم کی شہہ رگ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ ہمارے دینی اداروں کو دستور میں دیئے گئے حق کی بنیاد پر چلنے دیا جاۓ لیکن فرقہ پرست انہیں ختم کرنے کی ناپاک سازش میں مبتلا ہیں ، مگر ہم ان شاء اللہ انہیں ایسا ہر گز نہیں کرنے دیں گے ، مدارس اسلامیہ کا وجو د ملک کی مخالفت کے لئے نہیں اس کی تعمیر و ترقی کے لئے ہے ،
مدارس کا ڈیڑھ سو سالا کر داراس کا گواہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں مولا نامدنی نے کہا کہ دوسری طرف ریاست آسام میں مدرسوں کو یہ کہہ کر ڈھایا جارہا ہے کہ یہ دہشت گردی کے مراکز ہیں اور بدامنی پھیلانے والی القاعدہ کے دفاتر بنے ہوۓ ہیں، یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے اتر پردیش میں جب تمام غیر منظور شدہ مدارس کا سروے کرانے کا سر کلر جاری ہوا ہے تو مسلمانوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے خدشات اٹھ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کا سر کلر جاری کرنے سے پہلے مسلمانوں کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے تھا، انہیں مطمئن کیا جانا چاہئے تھا، سر کار کی نیت پر شک کو کچھ اس لئے بھی تقویت مل رہی ہے کہ اتر پردیش میں بڑی تعداد میں غیر منظور شدہ دوسرے تعلیمی ادارے بھی چل رہے ہیں۔ چنانچہ اگر غیر منظور شدہ مدارس کا سروے ضروری ہے تو دوسرے غیر منظور شدہ تعلیمی اداروں کا سروے ضروری کیوں نہیں ؟ سر کار کی نیت اگر درست ہے تو یہ امتیاز کیوں ؟ مدارس کہاں ہیں ، کس زمین پر قائم ہیں اور انہیں چلانے والے کون ہیں اگر سروے کا مقصد یہی ہے تو ہم نہیں سمجھتے کہ اس میں کوئی غلط بات ہے ، مسلمان تعاون کرنے کو تیار ہیں، یوں بھی مدارس کے دروازے تو ہمیشہ سے سب کے لئے کھلے ہیں ، ان کے اندر چھپانے جیسی کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ سب کچھ آئینہ کی طرح صاف ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آسام کے وزیر اعلی بے بنیاد الزام تراشی کر کے مدارس کے انہدام کو درست ٹھہرانے کی کوشش کر رہے ہیں ، سوال یہ ہے کہ جو الزام وہ لگار ہے ہیں ، اس کا ان کے پاس ثبوت کیا ہے ، میر ادعوی ہے کہ وہ قیامت تک کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتے ، زبان سے آدمی تو کچھ بھی کہہ دے۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ آسام کے وزیر اعلی کا نگر میں کے دور میں بھی وزیر رہے ہیں ، بی جے پی اقتدار میں آئی تو اس وقت بھی وزیر ہوۓ ، مگر اب جبکہ وہ خو دوز پر اعلی بن چکے ہیں آسام کے مدارس انہیں القاعدہ کے دفتر نظر آنے لگے ، سوال یہ ہے کہ جب وہ وزیر تھے تب انہیں کہیں القاعدہ کیوں نظر نہیں آیا؟
ایک اور سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ مدرسوں میں خالص مذہبی تعلیم دی جاتی ہے ، اور اس کا اختیار ہمیں ملک کے آئین نے دیا ہے ، آئین میں ہمیں اپنے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور انہیں چلانے کا مکمل حق بھی دیا ہے ۔ مدارس میں قرآن و حدیث کی تعلیم میں دہشت گردی اور شد ہے پسندی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تا تو ہمارے مدارس کے طلبا بھی ٹرینوں کو آگ لگاتے ، دفتروں اور بسوں کو جلاتے اور سڑکوں پر نکل کر ہنگامہ آرائی کرتے ، بلکہ وہ تو کالجوں اور یونی ور سیٹیوں کے طلبا جنہوں نے پچھلے دنوں کتنے ہی ٹرینوں میں آگ لگائی اور سڑکوں پر اتر کر پر تشد د ہنگامہ کیا، تو کیا یہ مان لیا جاۓ کہ ملک کے کالجوں اور یونی ورسیٹیوں میں اب دہشت گر دی کی تعلیم دی جارہی ہے ؟ انہوں نے مزید کہا کہ ابھی حال ہی میں یوپی کے وزیر اعلی سہارنپور کے دورہ پر گئے تھے ، تو بعض فرقہ پرست حلقوں کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ یہاں شیخ الہند کے نام پر جو میڈیکل کالج ہے اس کا نام بدل دیا جاۓ، اس پر وزیر اعلی نے یہ جواب دیا کہ جن کے نام پر یہ کالج ہے وہ بہت بڑے مجاہد آزادی تھے ، میں اس وقت بیمار تھا اور اسپتال میں پڑا ہوا تھا، میر ابی چاہتا تھا کہ وزیر اعلی کو ایک ستائشی خط لکھ کر انہیں اس کے لئے مبارک باد دوں ، کیونکہ انہوں نے اس تاریخی سچائی کا اعتراف کیا ہے، ایسے میں یہ بڑا سوال پید اہو تا ہے کہ شیخ الہند اگر ایک عظیم مجاہد آزادی تھے تو ان کے شاگر د اور علمی اولادوں کی اولاد میں دیش ورودھی کیوں کر ہو سکتی ہے اور ان کے ذریعہ قائم کئے گئے یہ مدارس دہشت گردی کے مرکز کیسے ہو سکتے ہیں ؟
انہوں نے کہا کہ تاریخی بیچ یہ ہے کہ یہ ہمارے علماء اور اکابر ہی تھے جنہوں نے اس وقت ملک کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرانے کا خواب دیکھا جب پوری قوم سور ہی تھی، اس کے لئے ہمارے علماء اوراکابرین نے قید و بند کی صعوبتیں ہی براداشت نہیں کیں بلکہ اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا آج ہمارے انہی اکابرین کے ذریعہ لگائے گئے ان درختوں کو جڑ سے کاٹ دینے کی سازشیں آسام میں ہو رہی ہیں ، ان کی اولادوں کو غدار اور ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے ، انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جو کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے پڑھ کر نکلے ملک کی لاکھوں ہزار کروڑ کی دولت سمیٹ کر ملک سے فرار ہو چکے ہیں ، ملک کے عام شہری غربت وافلاس اور مو اور مہنگائی میں دب کر موت سے بد تر زندگی بسر کر رہے ہیں ، اور یہ لوگ ملک کا اثاثہ لوٹ کر غیر ممالک میں عیش کر رہے ہیں، کیا یہ دیش دروہی نہیں ہیں ؟ اور کیا یہ پتہ لگانے کی کوشش نہیں ہو گی کہ ان میں کتنے مسلمان ہیں ،؟ سچ تو یہ ہے کہ ان کی گردنوں تک قانون کے ہاتھ اب تک نہیں پہنچ سکے ہیں۔
Коментарі