top of page

شیخ الاسلام حضرت مدنی رح کی زندگی کے آخری لمحات،اتباع سنت وجذبائے خدمتِ دین..


شیخ الاسلام حضرت مدنی رح کی زندگی کے آخری لمحات،اتباع سنت وجذبائے خدمتِ دین..

از:مولانا سید ارشد مدنی صاحب مدظلہ

(صدر جمعیت علماء ہند )

شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین مدنی رح کی زندگی بڑی جامع زندگی تھی،ان کی زندگی کا وہ حصہ جو لوگوں کے سامنے تھا اور زندگی کے وہ لمحات جو گھر کی چار دیواری میں تھے ان میں اختلاف نہیں تھا، یکسانیت تھی اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ان کے رگ وریشے میں پیوست تھی۔ اگر انسان حدیث کا پڑھا ہوا نہیں ہے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے واقف نہیں ہے کسی چیز میں ، تو حضرت کے عمل کو دیکھ کر یہ باور اور یقین کرتا تھا کہ سنت یہی ہے۔ اسلئے کہ ہر آدمی یہ جانتا تھا کہ اس شخص کی زندگی کا کوئی عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ ہدایت سے ہٹا ہوا نہیں۔

پھر یہ صرف باہر کی زندگی نہیں۔گھر کے اندر کی زندگی بھی حضرت کی بالکل اسی کے مطابق تھی۔ میں حضرت کے بالکل مرض وفات میں حضرت کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔چونکہ حضرت کا معمول عام لوگوں کی طرح یا مشائخ کی طرح یہ نہیں تھا کہ اپنی اولاد اور اہل خانہ سے ہٹے کھچے ہوئے رہتے، بلکہ گھر میں تشریف لے جاتے تھے تو اہل وعیال کیساتھ اس طرح کھل کے ملتے تھے جیسا ایک بہترین صاحبِ خانہ اہلِ خانہ کیساتھ رہتاہے۔جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور آپ کا تعامل اہل خانہ کے ساتھ جو لوگ حدیث کے پڑھنے والے ہیں وہ جانتے ہیں۔ اس وقت علم نہیں تھا، نہیں سمجھتے تھے ۔لیکن اب جب حدیث کی روشنی میں حضرت کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو یہ محسوس ہوتاہے کہ حضرت کی یہ زندگی بالکل اس حدیث کے مطابق تھی۔ اور نبی کریم علیہ الصلوٰة والسلام کی زندگی کے مطابق اپنی زندگی گزارتے تھے۔ میں حضرت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اور بھی بچے تھے ۔ باہر سے کسی نے آکر ایک خط دیا۔ حضرت نے اس کو کھولا تو وہ خط عربی میں تھا۔ حضرت نے پڑھا، مسکرائے اور اس خط کو تکیہ کے نیچے رکھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ خط کس کا تھا ابا جی؟ فرمایا کہ تیرے چچاکا تھا، مدینہ منورہ سے۔میں پوچھا کہ کیا لکھا ہے انہوں نے ؟ (میں عربی نہیں جانتا تھا ، فارسی پڑھتا تھا) فرمانے لگے کہ یہ لکھا ہے کہ: ہمارا اصل وطن مدینہ منورہ ہے ( یہ لوگ اپنے والد کو میاں کہا کرتے تھے )میاں نے مدینہ منورہ کوچھوڑا ،یہاں (ہندوستان میں) مکان بنایا ہم لوگ یہیں آباد ہوئے۔ ہمارے خاندان کے اتنے لوگ جنت البقیع کے پیوند بن گئے ۔ یہاں ہمارا وطن ہے، آپ نے اب تک تحریکات میں حصہ لیا، تعلیم لی، اب آپ بیمارہیں اپنے اہل وعیال کیساتھ مدینہ منورہ آجائیے۔ میں خصوصی طیارہ اپنے بیٹے حبیب کو لے کر بھیجتا ہوں وہ آپ سب کولے کر آجائے گا۔''

میں1955میں حضرت والدصاحب کے ساتھ حج پر جا چکا تھا۔ مدینہ منورہ کو دیکھ چکا تھا، شوق تھا میں نے بڑی خوشی کیساتھ کہا: ابا جی! چلئے ۔"حضرت پھر مسکرائے اوربات ختم ہوگئی۔ کیونکہ ضعف بہت ہوگیا تھا اسلئے دو دن کے بعد حضرت نے آہستہ آہستہ عربی کے اندر جواب لکھا ۔اتفاق سے اس وقت بھی میں پہنچا ۔ مجھ سے فرمایا :یہ خط لیجا کر قاری صاحب کو دے دو۔ خط لے جا کرتھوڑی دیر کے بعدمیں پھر حضرت کے پاس آیا۔ میں نے کہا :اباجی! آپ نے کیالکھا؟ فرمایا : یہ لکھا ہے کہ ہم ہندوستان میں رہ کر اسلام کی جو خدمت کرسکتے ہیں وہاں رہ کر نہیں کرسکتے۔''

یہ وہ لوگ تھے اور امت محمدیہ کا یہ وہ طبقہ ہے جس نے اپنی زندگی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی خدمت کیلئے وقف کردیا ۔ اس آخری وقت میں بھی یہ اہتمام ہے کہ وہ امانت محمد یہ، علم اور دین جو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی گردن پر ڈالا تھا اوریہ فرمایا تھا کہ یہ امانت ہے :فلیبلغ الشاھد الغائب…اس امانت کو لے کر بیٹھنا نہیں ہے۔ بلکہ جو لوگ براہ راست مجھ سے اس امانت کو لے رہے ہیں یہ ان کی گردنوں پر امانت ہے، وہاں تک پہنچائیں جو آج میرے سامنے نہیں ہیں۔

By Maulana Arshad Madani

President Jamiat Ulama-e-Hind

__________


480 views0 comments
bottom of page