top of page

جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس اختتام پذیر جمہوری نظام سے ہی ملک کی ترقی ممکن ملک کی بڑی آبا

Updated: Sep 17, 2021



نئی دہلی 30 /اگست 2021 آج مرکزی دفتر جمعیۃ علماء ہند کے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت مولانا ارشد مدنی صدر جمعیۃ علماء ہند منعقد ہوا۔اجلاس میں ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی بد تر صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا اور ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوزاور لڑکے اورلڑکیوں کے لئے اسکول وکالج کا قیام اورخاص طورپر لڑکیوں کے لئے دینی ماحول میں علیحدہ تعلیمی ادارے کا قیام واصلاح معاشرہ کے طریقہ کارپر تفصیل سے غوروخوض ہوا۔ اس اجلا س میں ممبران نے تمام مسائل پر کھل کر تبادلہئ خیال کیا۔۔ لاک ڈاؤن میں جمعیۃ علماء ہند کی بے لوث خدمات، ریلیف وبازآبادکاری اور ملزمین کی قانونی اورسماجی مدد، تبلیغی جماعت پر منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف جمعیۃ علماء ہند کی قانونی جدوجہد وغیرہ کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں جمعیۃ کی طرف نئے لوگوں کا رجحان بڑھا ہے، جس کی وجہ سے جمعیۃ کی ممبرشپ حاصل کرنے کے لئے لوگ بہت زیادہ دلچسپی دکھا رہے ہیں اور ہر صوبے میں جمعیۃ دفاتر سے نئے لوگوں کی ایک معتدبہ تعداد مستقل رابطے میں ہے۔ واضح رہے کہ پچھلے ٹرم میں جمعیۃ کے ممبران کی تعداد تقریبا ایک کڑوڑ پندرہ لاکھ تھی جبکہ اس سال اس تعداد میں اضافے کے قوی امکانات ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس ٹرم کی ممبر سازی کی مدت میں 15/اکتوبرتک کی توسیع کا اعلان کیا ہے۔ مولانا ارشدمدنی نے کہا کہ پورے ملک میں جس طرح کی مذہبی اور نظریاتی محاذ آرائی اب شروع ہوئی ہے اس کامقابلہ کسی ہتھیار یاٹکنالوجی سے نہیں کیا جاسکتا اس سے مقابلہ کا واحد راستہ یہ ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کو اعلیٰ تعلیم سے مزین کرکے اس لائق بنادیں کہ وہ اپنے علم اور شعور کے ہتھیارسے اس نظریاتی جنگ میں مخالفین کوشکست سے دوچارکرکے کامیابی اورکامرانی کی وہ منزلیں سرکرلیں جن تک ہماری رسائی سیاسی طورپر محدود اور مشکل سے مشکل تربنادی گئی ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ آزادی کے بعد آنے والی تمام سرکاروں نے ایک طے شدہ پالیسی کے تحت مسلمانوں کو تعلیم کے میدان سے باہر کردیا، یہ افسوسناک صورتحال کیوں پیداہوئی اوراس کے کیا اسباب ہوسکتے ہیں؟ اس پرہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے خودجان بوجھ کر تعلیم سے کنارہ کشی اختیار نہیں کی،کیونکہ اگر انہیں تعلیم سے رغبت نہ ہوتی تووہ مدارس کیوں قائم کرتے؟مولانا مدنی نے کہاکہ ہم ایک بارپھراپنی یہ بات دہرانا چاہیں گے کہ مسلمان پیٹ پر پتھرباندھ کر اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔ ہمیں ایسے اسکولوں اورکالجوں کی اشدضرورت ہے جن میں مذہبی شناخت کے ساتھ ہمارے بچے اور خاص کر بچیاں اعلیٰ دنیا وی تعلیم کسی رکاوٹ اور امتیازکے بغیر حاصل کرسکیں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج ارتداد کی مہم ہے جس کی وجہ سے مسلم لڑکیوں کے ارتداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے اوراس حوالے سے منظم شکل میں فرقہ پرست عناصر غیر مسلم نوجوانوں کو مسلم بچیوں کو ورغلانے کیلئے نہ صرف ہر طرح کی مددفراہم کررہے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے،اس صورتحال پر اگر بروقت قدغن نہ لگائی گئی تو آنے والے دن انتہائی خطرناک ہوں گے۔جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی اس مسئلے پرپر غورو خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ دینی تعلیمات سے بے زاری اس کا بنیادی سبب ہے اس لئے جمعیۃ علماء ہند بااثر اوردولت مند لوگوں سے اپیل کرتی ہے وہ اپنے اپنے علاقوں میں لڑکیوں کے لئے علیحدہ علیحدہ اسکول اور کالج کا انتظام کریں،اپنی بہو بیٹیوں کی عزت وآبرو اور ایمان کی حفاظت کے لئے یہ اس وقت کی شدید ضرورت ہے۔مولانامدنی نے یہ بھی کہاکہ بے حیائی اورفحاشی کسی مذہب کا شیوہ نہیں ہے دنیا کے ہر مذہب میں اسے براسمجھاگیاہے اس لئے کہ ان سے ہی معاشرہ میں بے راہ روی پھیلتی ہے اس لئے ہم اپنے غیرمسلم بھائیوں سے بھی یہ گزارش کریں گے کہ وہ اپنی بچیوں کو بے حیائی اوربے راہ روی سے دوررکھنے کیلئے مخلوط تعلیم دلانے سے گریز کریں اوران کے لئے الگ سے تعلیمی ادارے قائم کریں۔-

8 views0 comments
bottom of page